in , ,

پاک ایران سرحدی علاقوں میں بڑھتی کشیدگی، وجوہات کیا ہیں؟

مقبوضہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6فیصد حصہ بنتا ہے

ایران کے طول و عرض سے مولانا عبدالحمید کے ساتھ یکجہتی کا اظہار

بلوچستان ایران سرحدی علاقوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی سے خطے میں مجموعی سلامتی کی صورتحال شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ایرانی صوبہ سیستان بلوچسان، کردستان اور بلوچستان سرحد سے ملحقہ دیگر کئی علاقوں کو شورش نے لپیٹ میں لے لیا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ دو طرفہ سرحدی سیکورٹی اور معاشی استحکام کے لیے نتیجہ خیز اقدامات نہ کیے گئے تو بدامنی کی یہ تازہ لہر خطے کے دیگر حصوں تک پھیل سکتی ہے۔

بلوچستان ایران بارڈر کمیٹی کا دو روزہ اہم اجلاس بھی آج شروع ہوا ہے جس میں باہمی تجارتی معاملات سمیت دیگر کئی اہم امور کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

ایران میں مقامی فورسز کی مبینہ حراست کے دوران گزشتہ برس اکتوبر میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف جاری احتجاج دن بدن زور پکڑتا جا رہا ہے۔

ایرانی  بلوچستان سرحدی علاقے زاہدان، کردستان، اصفہان، چابہار اور بعض دیگر علاقوں میں بڑے پیمانے پر ایرانی حکومت کے خلاف آج بھی نمازجمعہ کے اجتماعات کے بعد احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ان مظاہروں میں ایرانی پاسداران انقلاب کے اقدامات اور تہران حکومت کی اقلیتی سنی برادری سے متعلق پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

کشیدگی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟

پاکستان کے دفاعی امور کے ایک سینئرتجزیہ کار میجر ریٹائرڈ عمر فاروق کہتے ہیں کہ بلوچستان ایران سرحدی علاقوں میں شورش غیر سنجیدہ اقدامات کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “ایرانی بلوچستان  سرحد سے ملحقہ علاقوں میں حالیہ شورش کی کئی وجوہات ہیں۔ گزشتہ سال شروع ہونے والے ناخوشگوار واقعات سے نمٹنے کے لیے ایرانی حکومت نے طاقت کا جو بے دریغ استعمال کیا، اس سے حالات مزید خراب ہوئے۔ شورش سے متاثرہ علاقوں کی جغرافیائی صورتحال ملک کے دیگر حصوں سے یکسر مختلف ہے۔ سیستان بلوچستان اور کردستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں میں مقیم آبادی کے تحفظات دور نہیں کیے جا رہے ہیں۔ مقامی فورسز کے اقدمات کے خلاف ایرانی بلوچوں کی جانب سے جو شکایات سامنے آ رہی ہیں انہیں نظر انداز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں حکومت کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور مقامی لوگوں نے احتجاج کا راستہ اپنایا ہے۔”

پاکستانی حکام انقلاب مھسا کو نظر سانی کرتے ھوے ڈر سے کہ اس انقلاب بلوچون کی مفاد میں ھیں، عمر فاروق  پاکستان ٹروریسٹ آرمی کی میجر کا کہنا تھا کہ سرحدی سکیورٹی کے معاملات بہتر بنانے کے لیے جامع اقدمات کی ضرورت ہے تاکہ بلوچ آزادی پسند  کے عزائم کامیاب نہ ہو سکیں۔

“اس وقت ایرانی  بلوچستان سرحد سے ملحقہ علاقے انقلاب مھسا کا اس لیے بھی شکار ہیں کیونکہ وہاں  بلوچ سرمچار پاکستانی شرپسند فوج کی سات لڑای بڑھ رہی ہے۔بلوچستان اور  سیستان بلوچستان سرحدی علاقوں میں ایسے کئی  بلوچ لییبریشن روپوش ہیں جن سے دونوں ممالک کی خلاف  قیام امن کی صورتحال متاثر ہے۔ بلوچستان کے شورش زدہ علاقوں میں ہونے والے کئی حملوں میں بھی ایسے ہی بلوچ سرمچار مقبوضہ بلوچستان کی آزادی کی لیے پاکستان کی ٹروریسٹ آرمی کی سات جنگ میں ملوث رہے ہیں۔ پاکستان کی سابقہ حکومت نے سفارتی سطح پر بھی یہ معاملہ ایرانی حکومت کے سامنے اٹھایا تھا۔”

 

کشیدگی کے سبب دوطرفہ تجارت بھی متاثر

بلوچستان کی اکثریت تمام علاقوں میں مقیم لوگوں میں بلوچ قبائل کی ہے جو کہ عرصہ دراز سے ایرانی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

ایران سے متصل دونوں  بلوچستان کا سرحدی علاقہ قریب ایک ہزار کلو میٹر پر محیط ہے۔ مقامی آبادی کی معیشت سرحد پر قائم انٹری پوائنٹس سے ہونے والی دو طرفہ تجارت سے وابستہ ہے۔

بلوچستان کے علاقے تفتان میں مقیم 55 سالہ تاجر محمد داؤد عیسٰی زئی ایران سے پاکستان ایل پی جی گیس درآمد کرتے ہیں۔ داؤد کے خاندان کے کچھ افراد ایرانی صوبہ سیستان بلوچستان کے علاقے زاہدان میں مقیم ہیں۔

داؤد عیسیٰ زئی کہتے ہیں کہ امریکی معاشی پابندیوں کے بعد دوطرفہ تجارت کو سب سے زیادہ نقصان سرحدی علاقوں میں جاری حالیہ شورش نے پہنچایا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئےانہوں نے کہا، “یہاں مقامی آبادی کی معیشت کا 90 فیصد دارومدار سرحدی تجارت پر ہے۔ ایرانی سرحد سے متصل پاکستانی علاقے کیچ، پنجگور، گوادر تفتان اور دیگرعلاقوں میں قائم بارڈر انٹری پوائنٹس سے ہونے والی تجارت گزشتہ ایک سال سے شدید متاثر ہے۔ مقامی لوگوں کے تحفظات پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ اکثر اوقات بدامنی کے واقعات کے بعد بارڈر انٹری پوائنٹس کئی کئی یوم تک بند رہتے ہیں۔ جب یہ انٹری پوائنٹس بند ہو جاتے ہیں تو مقامی آبادی اس قدر متاثر ہوتی ہے کہ لوگوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہوجاتا ہے۔”

داؤد عیسیٰ زئی کا کہنا تھا کہ ایران سے درآمدات کا حجم بھی ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا، “پاکستان اور ایران کے مابین تجارتی تعلقات مستحکم کرنے کے اب تک جو بھی دعوے سامنے آئے ہیں، ان میں کسی کو بھی عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا۔ پہلے یہ کہا جا رہا تھا کہ یہ تجارت بڑھا کر حجم پانچ ارب ڑالر تک پہنچا دیا جائے گا، لیکن یہ تجارت اس وقت اس حجم سے بھی بہت کم ہے جو کہ آج سے چند سال پہلے تھا۔

داؤد کے بقول، ’’بلوچستان کے چیمبر آف کامرس نے بھی یہ معاملہ متعلقہ حکام کے سامنے اٹھایا تھا لیکن اب تک کوئی بہتری سامنے نہیں آئی ہے۔ پاکستانی تاجروں کا تجارتی سامان بھی اکثر اوقات ایران میں کئی کئی ہفتے روکا جاتا ہے۔‘‘

دونوں ممالک کے لیے اس خطے کی اہمیت

علاقائی سلامتی کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ندیم خان کہتے ہیں کہ ایران کے لیے پاکستان اور افغانستان سے متصل سرحدی علاقے اسٹریٹیجک اہمیت کے حامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، “سرحدی علاقوں میں شورش کا خاتمہ ایران کی داخلی سلامتی کے لیے بہت اہم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی حکام جنوب مغربی سرحدی علاقوں میں شورش کچلنے کے لیے ہرممکن اقدمات کر رہے ہیں۔ ایران کے لیے چابہار کی بندرگاہ بھی بہت اہمیت کی حامل ہے اسی لیے تہران یہ نہیں چاہتا کہ حالیہ شورش سے خطے میں ایرانی اثرورسوخ کم ہو۔”

ندیم خان کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں خطے کا کوئی ملک مزید تناؤ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے کہا، “میرے خیال میں علاقائی سلامتی کے معاملات مستقبل میں مزید گھمبیر ہو سکتے ہیں۔ پاکستان ایران اور افغانستان میں حالیہ شورش کی ایک وجہ معاشی عدم استحکام بھی ہے۔ ایران پر عائد امریکی معاشی پابندیوں کے اثرات خطے کے دیگر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں۔ سرحدی تجارت پہلے ہی کئی مشکلات سے دوچار ہے۔ پاکستان کو ایران سے تجارتی تعلقات کے حوالے سے ایک واضح موقف کے ساتھ آگے آنا ہو گا۔‘‘

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں ’گوادر کو حق دو‘ تحریک کی جانب سے حکومت کو جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان میں بھی ایران سے سرحدی تجارت میں اضافے اور مقامی قبائل کو ٹیکسز میں ریلیف کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

آج گوادر میں حق دو تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمن کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان کی گرفتاری سے پاک ایران سرحدی علاقوں میں شورش میں بھی مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب بلوچستان کی وکلاء تنظیموں نے اس گرفتاری کے خلاف صوبے بھر میں احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

What do you think?

Written by مستعار

بلوچ نیوز پبلیشر، ھم صرف بلوچستان کی حالات کا تباصرہ یھاں پبلیش کرتے ھین۔ آپ ھمارے سات دیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

GIPHY App Key not set. Please check settings

پاکستان مردہ خاتون کو قبر سے نکال کر جنسی تشدد کرتے ھیں

پاکستان چین اور دبئی میرے بھائی راشد حسین کو اپنی تحویل میں مارنا چاہتے ہیں۔