in

قائد اعظم یونیورسٹی بلوچ اور پختون طلبہ کی لڑائی

’ماہل بلوچ خودکش حملہ آور نہیں‘

دوسری طرف تاریخی اہمیت کی حامل پنجاب یونیورسٹی میں پشتون اور پنجاب کونسل کے درمیان جھگڑے میں تقریباً 15 طلبہ شدید زخمی ہوئے اور بدھ کے روز یونیورسٹی کو فوری طور پر بند کرنا پڑا۔ یہ پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے درمیان پرتشدد تصادم کی اکلوتی مثالیں نہیں بلکہ آئے دن ایسے واقعات پیش آتے ہیں۔

انتہائی معمولی باتوں سے شروع ہونے والی یہ لڑائیاں بالعموم تلخ کلامی سے ہوتی ہوئی ڈنڈوں، پتھروں، لاٹھیوں اور اسلحہ تک جا پہنچتی ہیں۔

ایسی لڑائیاں بالعموم اتنی پرتشدد ہوتی ہیں کہ کئی طلبہ ہفتوں ہسپتالوں میں زیر علاج رہتے ہیں اور یہاں تک کہ جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ آخر پاکستان کے تعلیمی ادارے پرتشدد تصادم کی آماجگاہ کب اور کیسے بنے؟ اور نوجوانوں کو پرامن تعلیمی و تربیتی ماحول کیسے فراہم جا سکتا ہے؟ ڈی ڈبلیو اردو نے مختلف ماہرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے۔

پاکستان کے تعلیمی ادارے پرتشدد تصادم کی آماجگاہ کیسے بنے؟

تحقیقی ادارے جناح انسٹی ٹیوٹ کی ”اے پولیٹیکل یا ڈی پولیٹیسائز؟ پاکستانی نوجوان اور سیاست‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیق میں تعلیمی اداروں کے اندر تشدد کے کلچر کو سابق ملڑی ڈکٹیٹر ضیاء الحق کے دور سے جوڑا گیا ہے۔

What do you think?

Written by مستعار

بلوچ نیوز پبلیشر، ھم صرف بلوچستان کی حالات کا تباصرہ یھاں پبلیش کرتے ھین۔ آپ ھمارے سات دیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

GIPHY App Key not set. Please check settings

بلوچستان: نجی جیل میں قید ایک ماں کا دو بچوں سمیت قت

اس وقت بلوچستان میں آرمی رول کر رہی ہے