in , ,

گوادر کی تاریخ: بلوچ قبائل سے عمان اور پھر پاکستان کے قبضے میں آنے والی بندرگاہ جس پر ورلڈ کی بھی نظریں ھیں

فاروق عادل مصنف، کالم نگار

1840 میں شائع ہونے والے اس فرانسیسی نقشے میں گوادر کو بلوچستان نامی خطے کا حصہ دکھایا ہوا ہے
1840 میں شائع ہونے والے اس فرانسیسی نقشے میں گوادر کو بلوچستان نامی خطے کا حصہ دکھایا ہوا ہے
ٹائم ماگزین نے اپنے ستمبر 1958 کے شمارے میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان گوادر کے مقام پر ایک بڑا ایئرپورٹ اور بحری اڈہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ پیشگوئی کم و بیش نصف صدی بعد پوری ہونے کی نوبت آ رہی ہے
ٹائم ماگزین نے اپنے ستمبر 1958 کے شمارے میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستان گوادر کے مقام پر ایک بڑا ایئرپورٹ اور بحری اڈہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ پیشگوئی کم و بیش نصف صدی بعد پوری ہونے کی نوبت آ رہی ہے

تاریخ میں دو قوتیں ہی ایسی گزری ہیں جنھوں نے گوادر کی اہمیت کو پہچانا، برطانیہ اور اس کے بعد پاکستان۔

برطانیہ کی دلچسپی والی بات تو اب پرانی ہوگئی کیونکہ اس کا تعلق 19ویں صدی کے وسط اول سے ہے جب افغانستان نے 1839 میں ان علاقوں پر حملہ کیا۔ اس وقت برطانوی حکومت نے ضرورت محسوس کی کہ وہ تربت اور ایران کے درمیان پورے خطے کے بارے میں معلومات حاصل کرے اور گوادر کی تاریخی، سیاسی اور دفاعی اہمیت سے واقفیت حاصل کرے۔

گوادر پر پاکستان کی توجہ تقسیم ہند کے فوراً بعد ہی مبذول ہو گئی تھی اور اس نے اپنے قیام کے تقریباً دو برس بعد سنجیدگی سے کوشش کی کہ یہ علاقہ اس کی تحویل میں آ جائے۔

بحیرہ عرب کے کنارے واقعہ اس ساحلی علاقے میں پاکستان کی دلچسپی کی وجوہات دو تھیں: معیشت اور مضبوط دفاعی حصار۔ گوادر ان دونوں مقاصد کی راہ میں ایک بڑی دیوار کے طور پر حائل تھا۔ یہ دیوار صرف اسی طور گرائی جا سکتی تھی اگر یہ علاقہ پاکستان میں شامل کر لیا جاتا۔

گوادر کو پاکستان میں شامل کرنے کی ضرورت کیا تھی؟

پاکستان اپنے قیام کے بعد اپنی تاریخ کے شاید سب سے بڑے اقتصادی بحران سے دوچار تھا جب وہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادایئگی کے وسائل بھی نہیں رکھتا تھا۔ سمگلنگ کی وجہ سے اس مسئلے کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا کیونکہ اس طرح سے قومی وسائل تیزی سے سکڑتے جا رہے تھے۔

اس زمانے میں سمگلنگ کا ایک بڑا مرکز گوادر کی یہی پرانی اور غیر ترقی یافتہ بندر گاہ تھی۔ اگرچہ یہاں ایک ایئر پورٹ بھی موجود تھا لیکن اس کے استعمال کی نوبت کبھی کبھار ہی آتی اور 1956 میں آخری بار اسماعیلی برادری کے پرنس علی خان کی یہاں آمد کے موقع پر رونق دیکھی گئی تھی۔

20ویں صدی کے نصف اوّل میں گوادر کا ہوائی اڈا برطانیہ سے انڈیا آنے والے طیاروں کے لیے ایک اہم پڑاؤ تھا
20ویں صدی کے نصف اوّل میں گوادر کا ہوائی اڈا برطانیہ سے انڈیا آنے والے طیاروں کے لیے ایک اہم پڑاؤ تھا

دفاعی عدم تحفظ کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان نے مختلف جائزے مرتب کروائے جن کے بعض منتخب حصے 25 ستمبر 1958 کو پاکستانی اخبار نوائے وقت میں شائع ہوئے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان بحیرہ عرب کی اس ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ‘گواٹر’ (Gwatter) کے مقام تک، جو پاکستانی سرزمین کا آخری مقام ہے، ایک سڑک تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا تھا تاکہ ملک کا دفاع مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ سمگلنگ پر بھی قابو پایا جاسکے۔ لیکن اس منصوبے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ گوادر کی صورت میں حائل تھی جس پر اس کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ رپورٹ کے مطابق یہی سبب تھا کہ حکومت پاکستان نے 1949 میں ہی گوادر کے حصول پر سنجیدگی سے توجہ دینی شروع کی۔

‘جذبہ خیر سگالی کے تحت بلامعاوضہ’ حاصل ہونے والا خطہ

یہ کوششیں 1958 میں اپنے عروج پر پہنچ گئیں جب پاکستان اور عمان کے درمیان اس معاملے میں فیصلہ کن بات چیت ہوئی جس میں اس خطے میں سابق قابض قوّت اور عمان میں فوجی اڈے رکھنے والی طاقت برطانیہ نے دونوں ملکوں کی معاونت کی۔ یوں اس زمانے کی غیر ترقی یافتہ بندر گاہ پاکستان کا حصہ بن گئی۔

پاکستان میں گوادر کے انضمام کا اعلان اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم فیروز خان نون نے پارلیمان کے اجلاس میں کیا اور قوم کو بتایا کہ عمان کے سلطان اعلیٰ حضرت سعید بن تیمور نے یہ علاقہ خیر سگالی کے جذبے کے تحت بلامعاوضہ پاکستان کے حوالے کیا ہے جو نسلی، لسانی، جغرافیائی اور تاریخی طور پر فطری طور پر پاکستان کا حصہ تھا۔ اس کے ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ آئین کی دفعہ 104 کے تحت یہ علاقہ مغربی پاکستان میں شامل سمجھا جائے گا، اسے خصوصی حیثیت حاصل ہوگی لیکن یہاں کے باشندوں کے حقوق ملک کے دیگر شہریوں کے برابر ہوں گے۔

پاکستان کے طول و عرض میں یہ اعلان ایک بڑی کامیابی کے طور پر سنا گیا اور ملک کے تمام حصوں میں چراغاں کر کے اس کی خوشی منائی گئی۔ گوادر کی آبادی بھی ان خوشیوں میں شامل تھی۔

قبضہ منتقلی کی تقریب اور ٹائم میگزین کا حیرت انگیز انکشاف

عمان سے گوادر کا رسمی طور پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے وفاقی حکومت کے سیکریٹری کابینہ آغا عبدالحمید سمندری راستے سے کراچی سے گوادر پہنچے تو وہاں کی مقامی آبادی بندر گاہ پر امڈ پڑی جبکہ کشتی بانوں اور ماہی گیروں کی ایک بڑی تعداد نے گردن گردن گہرے پانی میں تیرتے ہوئے کروز تک پہنچ کر ان کا استقبال کیا۔

اگلے روز برطانوی قونصل جنرل نے آغا عبدالحمید کو وہ دستاویز پیش کیے جن کے ذریعے گوادر پاکستان کا حصہ قرار پایا۔ اس کے بعد گوادر کے ایڈمنسٹریٹر کی رہائش گاہ پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں بھی اس واقعے کو ملک کی تاریخی کامیابی اور انڈیا کی ہزیمت کے طور پر دیکھا گیا۔

اس سلسلے میں روزنامہ جنگ میں انتہائی دلچسپ کارٹون شائع ہوا جس میں دو دروازے دکھائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک بھارتی ساحلی علاقے گوا کا تھا، جس سے بھارت کو نکلتے ہوئے دکھایا گیا جبکہ پاکستان کو گوادر کے دروازے سے اندر داخل ہوتے دکھایا گیا۔

پاکستان میں سرشاری کی یہ کیفیات آئندہ تقریباً دو ہفتے یعنی اس وقت تک جاری رہی جب تک عالمی شہرت یافتہ جریدے ٹائم کا آئندہ 22 ستمبر 1858 کا شمارہ شائع نہیں ہوا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان کو گوادر کا یہ قبضہ جذبہ خیر سگالی کے طور پر بلا معاوضہ حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے لیے ایک خطیر رقم یعنی 4 کروڑ 20 لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ جریدے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ حکومت پاکستان نے سلطان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ اگر اس علاقے سے تیل نکالا گیا تو اس کی آمدن میں سے کچھ حصہ انھیں بھی دیا جائے گا۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ نے یہ خبر بڑے نمایاں انداز میں شائع کی، جس سے ملک میں بحرانی کیفیت پیدا ہو گئی۔ حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ اس نے قوم کو غلط معلومات فراہم کیں اور انھیں اندھیرے میں رکھا۔

1840 میں شائع ہونے والے اس فرانسیسی نقشے میں گوادر کو بلوچستان نامی خطے کا حصہ دکھایا ہوا ہے
1840 میں شائع ہونے والے اس فرانسیسی نقشے میں گوادر کو بلوچستان نامی خطے کا حصہ دکھایا ہوا ہے

انڈیا کے ‘مذموم عزائم’

اس ہنگامہ خیز صورت حال میں حکومت کچھ دنوں تک خاموش رہی لیکن 24 ستمبر 1958ءکے بعد گورنر مغربی پاکستان نواب مظفر قزلباش نے اپنے ایک پالیسی بیان کے ذریعے خاموشی توڑی۔ اس سے ٹائم میگزین کی خبر سے شروع ہونے والی بحث کا خاتمہ بھی ہوا اور اس معاملے میں ایک نیا پہلو بھی شامل ہوگیا، یعنی گواد کے حصول کے سلسلے میں انڈیا کی دلچسپی سامنے آئی۔

ان کے بیان کا لبِ لباب یہ تھا کہ: یہ درست ہے کہ پاکستان نے گوادر کے حصول کے لیے رقم ادا کی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بھارت بھی گوادر میں دلچسپی رکھتا تھا اور اُس نے اِس کے حصول کے لیے عمان کے سلطان کو پاکستان کے مقابلے میں دس گنا زیادہ معاوضے کی پیشکش کی تھی۔ بھارت نے اس مقصد کے لیے کئی ایسے ملکوں کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش بھی کی جو اس معاملے میں اثر انداز ہو سکتے تھے۔

ان کے مطابق انڈیا کا موقف تھا کہ گوادر کی اکثریتی آبادی ہندو ہے، اس لیے پہلا حق ان کا ہے۔ (اس کے مقابلے میں پاکستان کی طرف سے جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق انضمام کے وقت گوادر کی کُل آبادی 20 ہزار تھی، جن میں صرف ایک ہزار ہندو تھے)۔

انھوں نے انکشاف کیا کہ معاوضے کی پیشکش اور سفارتی حمایت کے حصول میں ناکامی کے بعد انڈیا نے آخری کوشش یہ کی کہ اس علاقے کے مستقبل کا فیصلہ استصواب رائے کے ذریعے کروایا جائے۔ اس مقصد کے لیے حکومتِ ہند نے وزیر اعظم فیروز خان نون کو ایک خط بھی لکھا اور مطالبہ کیا کہ استصواب رائے کے انعقاد کے لیے انڈین افسران کو بھی وہاں آنے کی اجازت دی جائے۔ نواب قزلباش کے دعوے کے مطابق حکومت پاکستان نے مطالبہ مسترد کر کے انڈیا کی یہ کوشش بھی ناکام بنا دی۔

گوادر میں انڈیا کی دلچسپی کب اور کیسے کیسے پیدا ہوئی؟ اس کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ اس کہانی کا آغاز جنوری 1947 کو ہوتا ہے جب عمان کے سلطان نے یہ محسوس کیا کہ ان کے ملک میں گوادر دور دراز اور بےآب و گیاہ علاقہ ہے جہاں کا انتظام برقرار رکھنا ان کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے خلیج فارس ریزیڈنسی بحرین نے حکومت انڈیا کے سیکریٹری کو خط لکھا، جس میں سلطان کی طرف سے ریاست قلات کو گوادر کی فروخت کے ارادے سے آگاہ کیا گیا تھا۔

برطانوی حکومت چونکہ بہت پہلے سے ہی اس علاقے میں دلچسپی رکھتی تھی لہٰذا اس نے پیشکش پر غور کیا۔ لیکن اس وقت اس کے لیے دوسری عالمی جنگ دردِ سر بنی ہوئی تھی جس سے پہلے نمٹنا ضروری تھا۔ چنانچہ فیصلہ کیا گیا کہ اس معاملے کو جنگ کے خاتمے تک ملتوی کر دیا جائے۔

گوادر عمان کا حصہ کیسے بنا؟

گوادر کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت کے بارے میں حکومتِ پاکستان کی رپورٹ کے جو حصے شائع ہوئے، ان میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ ریاست قلات اس علاقے کی کبھی مالک نہیں رہی۔ اس کا ثبوت کئی تاریخی دستاویزات اور ایک برطانوی سیاح میجر جنرل سر چارلز میٹ کیف میک گریگور کی 19ویں صدی میں شائع ہونے والی کتاب ‘وانڈرنگز اِن بلوچستان’ سے پیش کیا گیا۔ اس کتاب کے مطابق یہ علاقہ سکندرِ اعظم کے زمانے سے مکران کا حصہ رہا ہے۔

بلوچ سرداروں کی باہمی لڑائیوں اور کشمش کے نتیجے میں مکران کے گچکی سرداروں نے ریاست قلات سے ایک معاہدے کے تحت ان کی بلادستی قبول کی تھی جس میں یہ طے پایا تھا کہ وہ ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے۔

یہ علاقہ تاریخی طور پر مکران کا حصہ اور کچکی بلوچوں کی ملکیت تھا۔ یہ تصویر مکران کے ساحل پر 19ویں صدی میں ’گواٹر‘ کے مقام کے قریب ایک برطانوی پڑاؤ کی ہےیہ علاقہ تاریخی طور پر مکران کا حصہ اور کچکی بلوچوں کی ملکیت تھا۔ یہ تصویر مکران کے ساحل پر 19ویں صدی میں ’گواٹر‘ کے مقام کے قریب ایک برطانوی پڑاؤ کی ہے

یہ اس خطے میں عمانی شہزادے سعید سلطان کی آمد سے پہلے کی بات ہے۔ شہزادہ سعید جانشینی کی جنگ میں ناکامی کے بعد سن 1783 میں کواڈہ کے راستے مکران کے میرواری قبیلے کے ایک گاؤں ‘زک’ میں پہنچے اور قبیلے کے سردار داد کریم یرواری نے ان کی ملاقات خان آف قلات سے کروائی۔

شہزادہ سعید چاہتے تھے کہ تاج و تخت کی اس لڑائی میں انھیں فوجی حمایت فراہم کی جائے لیکن مقامی سرداروں نے عمان کی اندرونی لڑائی کا حصہ بننے کے بجائے گوادر کا علاقہ اس شرط پر دے دیا کہ اگر ان کا اقتدار بحال ہو گیا، تو وہ گوادر کو گچکی سرداروں کے حؤالے کر دیں گے۔

اس کی تصدیق بلوچستان گزیٹئر سے بھی ہوتی ہے جس کی جلد نمبر 7 میں بتایا گیا ہے کہ: ‘گوادر با عاریت امانت وادہ’ یعنی گوادر کو امانت کے طور پر عمان کے شہزادے کے سپرد کیا گیا تھا۔

گوادر کے حصول کے لیے پاکستان کی طرف سے پیش کی جانے والی دستاویزات میں ایک افغان حاجی عبدالغنی کی رپورٹ کا حوالہ بھی شامل ہے۔ اس معاملے میں حاجی عبدالغنی کی دلچسپی دراصل گوادر میں برطانوی حکومت کی غمازی کرتی ہے۔ 1939 میں افغانستان جب اس علاقے پر حملہ آور ہوا تو برطانوی ریزیڈنٹ جنرل برائے قلات نے اس افغان شہری کی خدمات حاصل کر کے یہ رپورٹ مرتب کروائی۔ 1939 میں ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی طرف سے شائع ہونے والی اس رپورٹ سے بھی یہ سراغ ملتا ہے کہ یہ علاقہ تاریخی طور پر مکران کا حصہ اور کچکی بلوچوں کی ملکیت تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ گوادر اور چاہ بار (رپورٹ میں چاہ بہار نہیں لکھا گیا) بلوچوں کے دو علاقے اور مکران کا حصہ ہیں۔ یہ ایسا سمندری علاقہ ہے جس کے ذریعے خلیج فارس پر کنٹرول کے ذریعے خطے کے سٹریٹیجک معاملات اور تجارت کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔ گویا یہی وہ غیر معمولی دستاویز ہے جس کے ذریعے گوادر کی افادیت برطانوی حکومت کی سمجھ میں آئی۔

قرائن سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان گوادر کی ملکیت سے متعلق ان تاریخی اور جغرافیائی حوالوں کو مرتب کرنے پر اس لیے مجبور ہوا کیونکہ عمان کے سلطان کی طرف سے جنوری 1947 میں برطانوی حکومت کے ذریعے اس کی فروخت کی پیشکش ہوئی، جس کی وجہ سے انڈیا نے اس میں دلچسپی لینی شروع کر دی اور گوادر کے حصول کی کوششوں میں مصروف ہو گیا۔

گوادر کا قصبہ اور ساحلی علاقہ پاکستان کے 11 برس بعد بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا
گوادر کا قصبہ اور ساحلی علاقہ پاکستان کے 11 برس بعد بلوچستان پاکستان کا حصہ بنا

گوادر میں انڈین کرنسی اور سمگلنگ کا مال

گوادر میں انڈیا کی دلچسپی کی دو بڑی وجوہات ٓتو ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال کی رپورٹ سے واضح ہیں۔ اس سے بھی اہم وجہ اُس وقت کے اخبارات کے بقول یہ تھی کہ اس زمانے میں یہ علاقہ سمگلروں کی جنت کے طور پر جانا جاتا تھا۔ ان اطلاعات کے مطابق کراچی سے گوادر تک سمگلروں کا ایک نیٹ ورک متحرک تھا جو پاکستان سے سونا، غذائی اجناس اور دیگر قیمتی چیزیں بیرون ملک منتقل کیا کرتا تھا۔

اخباری اطلاعات کے مطابق گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد ان سرگرمیوں میں مزید شدت پیدا ہوگئی۔ سمگلنگ میں تیزی کی اطلاعات اس وقت سامنے آئیں جب گوادر کے پاکستان میں شامل ہونے کے بعد پاکستانی سیاحوں اور غیر ملکی سامان سستے داموں خریدنے کے شائقین افراد نے گوادر کا رخ کرنا شروع کیا۔

اس زمانے میں کراچی سے گوادر تک کا سفر سمندری راستے سے ہوا کرتا تھا جس کا کرایہ 23 روپے تھا لیکن ان دنوں میں بڑھ کر 300 روپے تک جا پہنچا تھا۔

ان سیاحوں نے گوادر کا آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں بیان کیا: گوادر کے پاکستان میں شمولیت کے وقت وہاں کے بازار قیمتی ساز و سامان اور غیر ملکی کپڑے سے بھرے ہوئے تھے۔ پھر یہ سامان راتوں رات غائب ہونا شروع ہو گیا جس کے ذمہ دار وہ ہندو تاجر تھے جن کی مارکیٹ پر اجارہ داری تھی۔

سیاحوں نے یہ بھی بتایا کہ عمان کا حصہ ہونے کے باوجود وہاں بھارتی کرنسی میں لین دین ہوتا تھا۔ سیاحوں کے ان بیانات کی تائید گوادر کی پاکستان میں شمولیت کے بعد تجارت اور درآمد برآمد کے سلسلے میں جلدی میں کیے جانے والے اقدامات سے بھی ہوتی ہے۔ ابتدا میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ہر قسم کی تجارت معمول کے مطابق جاری رہے گی لیکن جب سونے، کرنسی اور دیگر اشیا کی سمگلنگ شروع ہو گئی تو حکومت کو مجبوراً بہت سے پابندیاں عاید کرنی پڑی۔

تاہم ایسی ہی سرگرمیاں جاری رہی ہوں گی، جن کی روک تھام کے لیے ساحلی علاقوں کے گرد ایک شاہرہ کی تعمیر کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن اس کی راہ میں عمان حائل تھا جس کا گوادرپر اختیار تھا۔ گوادر کی پاکستان میں شمولیت سے یہ رکاوٹ بھی دور ہوگئی۔

گوادر پر ہوائی، بحرے اڈے کی پیشگوئی

ٹائم ماگزین نے ستمبر 1958 کے شمارے میں دو انکشاف کیے تھے: گوادر کی فروخت کے سلسلے میں ادا کی جانے والی رقم کا، اور یہ کہ پاکستان اس مقام پر ایک بڑا ایئرپورٹ اور بحری اڈہ تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ پیشگوئی کم و بیش نصف صدی کے بعد پوری ہونے کی نوبت آ رہی ہے جسے آنے والے دور کی کلید قرار دیا جاتا ہے۔

شاید اسی سبب سے ایک بھارتی مصنف کارتھک نامبی نے دعویٰ کیا ہے کہ عمان کے سلطان نے تقسیم ہند کے بعد بھی گوادر کی فروخت کے لیے انڈیا سے رابطہ کیا تھا لیکن انڈین حکومت نے اس پیشکش پر کوئی توجہ نہ کی۔ اس کے بعد سلطان نے پاکستان سے رابطہ کر لیا۔

یوں انڈین قیادت کی کوتاہ نظری نے انڈیا کی قسمت کا ستارہ بلند ہونے کا موقع ضائع کر دیا اور تاریخ اور جغرافیے، دونوں کا دھارا بدل گیا۔

What do you think?

Written by مستعار

بلوچ نیوز پبلیشر، ھم صرف بلوچستان کی حالات کا تباصرہ یھاں پبلیش کرتے ھین۔ آپ ھمارے سات دیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

GIPHY App Key not set. Please check settings

گوادرحق دو تحریک کے کارکن ایک بار پھر میدان میں

گوادرحق دو تحریک کے کارکن ایک بار پھر میدان میں

جئے آزاد سندھو دیش - جئے آزاد بلوچستان

بلوچ قومُ کو اپنی شناخت بدلنے اور بلوچی کو مادری زبان قرار دینے سے روکنا سندھی و بلوچی دوستی نہیں بلکہ فاشسٹ رویہ ہے جس کی ہم مذمت کرتے ہیں۔